پاكستان میں نفاذ اسلام كی كوششیں

پس منظر:

پاكستان كا قیام ہی نفاذ اسلام كی خاطر عمل میں آیا۔ یعنی تخلیق پاكستان محض آزادی كے حصول كی خواہش كا شاخسانہ نہیں بلكہ حصول آزادی ایك بلند مقصد كے حصول كا ذریعہ تھی۔ علامہ اقبال اور حضرت قائد اعظم نے اپنی تعلیمات اور نگارشات میں واضح طور پر نفاذ اسلام كو تخلیق پاكستان كا محرك جذبہ قرار دیا تھا۔ لہٰذا نظریہ پاكستان تخلیق پاكستان كا باعث بنا۔ لہٰذا اس كے مستقبل كے نظام كے متعلق قائد اعظم اور علامہ اقبال نے واضح طور پر اساسی اصولوں كی نشاندہی كر دی تھی جس سے اسلام كے سیاسی، معاشی ور تمدنی اصولوں كی غمازی ہوتی ہے۔ لیكن اس كے ساتھ ساتھ علامہ اقبال نے عصر حاضر كے تقاضوں كو مدنظر ركھتے ہوئے اجتہادی بصیرت كو بروئے كار لانے پر بھی زور دیا تھا۔

اس بات سے انكار نہیں كیا جا سكتا كہ قیام پاكستان كے بعد نفاذ اسلام كے لیے مخلصانہ كوششیں نہ كی گئیں۔ ابتدائی قیادت جل دہی اس دنیا سے رخصت ہو گئی جبكہ انہیں شروع میں ہی نامساد حالات سے نپٹنا پڑا۔ لیكن بعد میں سیاسی فیصلے كرنے والوں یعنی حكومت، سیاسی قائدین، بیوروكریسی اور فوج﴿جو طویل عرصہ تك سول معاملات میں ملوث رہی﴾ ان سب كا رویہ ماسوائ چند مستثنیات سیكولر رہا۔ نتیجتاً اسلامی نظام حیات كے نفاذ كے لیے نہ تو سازگار ماحول پیدا كیا جا سكا اور نہ ہی جمہوری تمدن (Demoratic Political Culture) اجاگر ہو سكا۔ عملی سیاست شدید بے ابتری كا شكار رہی اور ذاتی مفادات كے حصول اور سیاسی طالع آزماوٕں كی باہمی كشمكش كے گرد گھومتی رہی۔

دوسری طرف سیكولر ذہن ركھنے والے سیاسی قیادت بھی كھل كر اسلامی نظریہ سے انحراف كی جرات نہ كر سكی۔ لہٰذا ہر مرتبہ آئین سازی كرتے وقت اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ شقیں تو ركھ دی گئیں، لیكن عملی طور پر اس جانب كوئی پیشرفت نہ ہو سكی۔ 1977ئ كی حكومت مخالف قومی اتحاد كی ملك گیر تحریك نفاذ مصطفےٰ كے نام پر چلائی گئی اور اس كی قوت اور دباوٕ كو بھی شدت سے محسوس كیا گیا۔ چنانچہ پیپلز پارٹی كی حكومت كے خاتمہ كے بعد جنرل ضیائ الحق كی حكومت نے اسلامی نظام كے نفاذ كے لیے متعدد اقدامات كئے۔ ان پر كس حد تك عمل كیا گیا، یہ پہلو غور و فكر كی دعوت دیتا ہے۔ اسی باب كے آخر میں اس پہلو كا مختصر طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔ ذیل میں مرحلہ واران تمام اقدامات كا ذكر كیا گیا ہے جو مختلف حكومتوں نے اس مقصد كے حصول كے لیے كئے۔